خاموشی اور مسکراہٹ
در گزر اور عفو
تجسس اور ٹوہ نہ کرنا
حتیٰ الارادہ خود کو کسی بھی ذات سے لاتعلق معاملے سے لا تعلق رکھنا۔
انسان کا معاملہ اللہ کے ساتھ زیادہ نازک اور احتیاط پسند ہےاور اللہ کی پسند نا پنسد کے کلی تابع ہے نہ کہ کسی بھی انسان کے۔
اللہ کے سامنے چونکہ چنانچہ نہیں چلے گا۔
خود احتسابی ہر پل ہر لمحہ ،ہرانسان کا مطمع نظر ہونا چاہئے۔
اچھی بات کہنا اور اسکو شخصیت کا حصہ بنانا بہت صبر طلب اور خود شناسی و عاجزی کا متقاضی ہے۔
ذاتی طور پر کسی سے بھی کچھ کہتی ہوں یا کچھ پڑھتی ہوں تو سب سے پہلے وہ عیب خود مین ٹٹلوتی ہوں کہ مین کہاں کھڑی ہوں ۔۔یہ بات میرے منہ پر کل جب روز حساب ماری جاۓ گی تو کس سے داد طلب کروں گی؟ ۔۔سوشل میڈیا پر کس سے اس پوسٹ پر لائک کمنٹ لوں گی؟۔۔۔۔
بس اسی لیۓ تھا تیرا عمل؟
خود کیوں نہ کیا وہ سب جو کہا یا لکھا۔۔
قول وعمل کی استقامت ہر ایک کو کب عطا ہوتی ہے؟
لیکن۔۔۔
کوشش کوشش کوشش
ایک رتی بھر شاید کامیابی نصیب ہو ہی جاۓ ۔
اللہ تو اتنا وسعت والا کہ وہ بس کن کہے گا "فیکون" کی عطا ہوجاۓ گی۔
اس سوچ سے شاید کچھ زنگ آلود قفل کھل جائیں، شاید عمل کی عطائیں ہوجائیں۔
شاید۔۔۔۔
سُمیریات